سنبھل کر چلنا کہ رستہ خراب ہے بیٹا
ہمارا نام لکھا ہے پُرانے قلعوں پر
مگر ہمارا مقدر خراب ہے بیٹا
گناہ کرنا کسی بے گناہ کی خاطر
مری نگاہ میں کارِ ثواب ہے بیٹا
اب اور تاش کے پتوں کی سیڑھیوں پہ نہ چڑھ
کہ اس کے آگے خُدا کا عذاب ہے بیٹا
ہمارے صحن کی مہندی پہ ہے نظر اس کی
زمیندار کی نیت خراب ہے بیٹا
راحت اندوری