گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے

گھر سے یہ سوچ کہ نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے
جسم سے ساتھ نبھانے کی مت اُمید رکھو
اس مسافر کو تو رستے میں ٹھہر جانا ہے
موت لمحے کی صدا زندگی عمروں کی پکار
میں یہی سوچ کے زندہ ہوں کہ مر جانا ہے
نشہ ایسا تھا کہ مے خانے کو دُنیا سمجھا
ہوش آیا، تو خیال آیا کہ گھر جانا ہے
مرے جذبے کی بڑی قدر ہے لوگوں میں مگر
میرے جذبے کو مرے ساتھ ہی مر جانا ہے
راحت اندوری
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *