اک وہ ہیں کہ جو خوابِ

اک وہ ہیں کہ جو خوابِ سفر دیکھ رہے ہیں
اک ہم ہیں کہ بس ٹوٹتے پَر دیکھ رہے ہیں
اَفلاک نشینوں سے کہو جتنا چھپو تم
کچھ خاک نشیں، خاک بسر‘ دیکھ رہے ہیں
حالانکہ ہوا عرش پہ آغاز خطا کا
اور اہلِ زمیں اُس کا اثر دیکھ رہے ہیں
تُو دیکھ نہیں پائے گا اے حشر کے مالک!
ہم لوگ جو یہ حشر اِدھر دیکھ رہے ہیں
دریا نے بُلایا تو چلا آیا ہوں‘ مجھ کو
ہمدرد نگاہوں سے بھنور دیکھ رہے ہیں
یہ جانتے ہیں کوئی مسیحا نہیں آنا
ہم لوگ مگر جانبِ در دیکھ رہے ہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *