میں نے کتنی ہی صدیاں

میں نے کتنی ہی صدیاں دیکھی ہیں
صرف اِکّیس سال کا ہوں میں
صرف اکیس سال دیکھے ہیں؟
تم بھی سوچو گے دیکھو بچہ ہے
اس کو کیا غم ہمارے جیسے بھَلا
اس کو کیا اس جہان سے مطلب
اپنی مستی میں رہتا ہو گا مست
اے مرے خوش خیال! اے خوش فہم!
جب ازل میں وہ پانی اور مٹی
گوندھ کر اُن پہ آگہی کی آگ
جھونکنے والا تھا تو اُس پل بھی
میرے سینے سے آگ لپٹی تھی
میں نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے
جنتِ عارضی کو ہنستے ہوئے
ایک آدم کو جب نکالا گیا
منصبِ حق پہ جب زوال آ گیا
میں نے دیکھا ہے ایک حوّا کو
کسی تنہا زمیں پہ روتے ہوئے
بے سہاری میں بین کرتے ہوئے
میں نے دیکھے ہیں خون کے رشتے
میں نے دیکھا ہے بھائیوں کا سلوک
میں نے دیکھا ہے ایک عیسیٰ ؑ کو
بے وجہ دار پر لٹکتے ہوئے
میں نے دیکھا ہے تپتی گرمی میں
ہو رہے تھے کسی بلالؓ پہ ظلم
میں نے دیکھا ہے ایک بچے کو
تیر کھا کر بھی مسکراتے ہوئے
میں نے دیکھا ہے سر کو نیزے پر
میں نے دیکھی ہے آگ خیموں میں
میں نے دیکھا ہے کچھ غریبوں کو
میں نے دیکھا ہے شام کا منظر
میں نے دیکھی ہے کربلا کی زمیں
میری آنکھوں سے خون رِستا ہے
صرف اِکّیس سال کا نہیں ہوں
میں نے کتنی ہی صدیاں دیکھی ہیں
*دانستہ طور پر بے سہاری استعمال کیا گیا ۔
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *