دل کے گلشن میں کوئی سبز پری رہتی ہے
تشنہ لب کون ہے وہ جس کے لئے نہر فرات
میری پلکوں کی منڈیروں پہ دھری رہتی ہے
مستقل خانہ بدوشی کا کوئی اجر نہیں
پاؤں سے لپٹی مرے در بدری رہتی ہے
اے مرے دل کے مکیں کچھ نہیں تبدیل ہوا
تم جہاں رہتے تھے شوریدہ سری رہتی ہے
جسم کے بھید تو کھل جاتے ہیں دھیرے دھیرے
روح سے روح کی تو پردہ دری رہتی ہے
دوست ہو جاتا مرا سارا زمانہ ہاشم
میرے ہونٹوں پہ مگر بات کھری رہتی ہے
ہاشم رضا جلالپوری