کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے

کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے
کبھو قدر داں عشق پیدا کرے ہے
یہ طفلان بازار جی کے ہیں گاہک
وہی جانتا ہے جو سودا کرے ہے
چھپائیں ہوں آنکھیں ہی ان نے تو کہیے
وہ ہر بات کا ہم سے پردہ کرے ہے
جو رونا ہے راتوں کو اپنا یہی تو
کنارہ کوئی دن میں دریا کرے ہے
ٹھسک اس کے چلنے کی دیکھو تو جانو
قیامت ہی ہر گام برپا کرے ہے
مریں شوق پرواز گلشن میں کیوں نہ
اسیروں کی یاں کون پروا کرے ہے
بنی صورتیں کیسی کیسی بگاڑیں
سمجھتے نہیں ہم فلک کیا کرے ہے
خط افشاں کیا خون دل سے تو بولا
بہت اب تو رنگین انشا کرے ہے
ہلاک آپ کو میرؔ مت کر دوانے
کوئی ذی شعور آہ ایسا کرے ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *