ماضی کے ورق پلٹ کے

غزل
ماضی کے ورق پلٹ کے روئے
یادوں سے تِری لپٹ کے روئے
روئے خوب ٹوٹ کر کبھی ہم
خود میں بھی کبھی سمٹ کے روئے
چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی
ہم طرزِ جہاں سے ہٹ کے روئے
اِک سرسبز شاخ کی طرح ہم
اُلفت کے شجر سے کٹ کے روئے
ہم تھکنے لگے تو راستے بھی
قدموں سے لپٹ لپٹ کے روئے
اُن کے ساتھ آسماں بھی رویا
جو اپنی زمیں سے ہٹ کے روئے
وہ چہرہ تھا اِک کتاب راغبؔ
جس کے ہر ورق کو رٹ کے روئے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *