جس نے روایتوں کی

غزل
جس نے روایتوں کی قبا تار تار کی
کہتے ہیں اُس نے راہ نئی اختیار کی
گلشن میں بڑھ گئی ہے اگرچہ انارکی
اُمّیٖد ہم کو پھر بھی ہے فصلِ بہار کی
کر دی ہے اُس نے اب تو مظالم کی انتہا
چھڑ جائے اب نہ جنگ کہیں آر پار کی
شامل کریں اِسے بھی اساسی حقوق میں
ہر ایک زندگی کو ضرورت ہے پیار کی
تُو ہے سخن کا تاج محل اے مِری غزل
کیا داد کوئی دے تِرے نقش و نگار کی
ساعت کو پہلے عمر سے تقسیم کر دیا
پھر تیرے انتظار کی ساعت شمار کی
آہ و فغاں سے ہلنے لگی ساری کائنات
کھُلتی نہیں ہے آنکھ مگر پہرے دار کی
دیتا نہیں ہے دل ہی مِرا ساتھ کیا کروں
میں نے تو بھول جانے کی کوشش ہزار کی
اے زندگی میں مر گیا اس امتحان میں
ممکن بھی تو نہ تھی کوئی صورت فرار کی
جنوری ۲۰۱۱ءطرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *