اُسی کا لمس ہر اک رات سے جڑا ہوا ہے

اُسی کا لمس ہر اک رات سے جڑا ہوا ہے
وہ کون ہے جو مری ذات سے جڑا ہوا ہے
اب اس سے ربط نہیں پھر بھی وہ نہ جانے کیوں
ہماری آنکھوں کی برسات سے جڑا ہوا ہے
اثر تو ہونا ہی تھا دوسرے علاقوں کا
یہ شہر غم کے مضافات سے جڑا ہوا ہے
میں اک اسی کے خساروں میں بس رہی لیکن
مرے وہ اب بھی مفادات سے جڑا ہوا ہے
اسی کا ذکر ہے پنہاں ربابؔ شعروں میں
وہ میری ذات کی ہر بات سے جڑا ہوا ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *