گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں

گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاضِ زیست ہے آزرسدئہ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اُداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں
بہارِ حسن پہ پابندی جفا کب تک؟
یہ آزمائشِ صبرِ گریز پا کب تک؟
قسم تمہاری بہت غم، اُٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا دعویٰ صبر و شکیب، آ جائو
قرارِ خاطر بیتاب، تھک گیا ہوں میں
فیض احمد فیض
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *