عشق کا اک عذاب تھوڑی ہے

عشق کا اک عذاب تھوڑی ہے
زیست مثلِ گلاب تھوڑی ہے
یوں ہی ہم جام کو اچھالتے ہیں
اب میسّر شراب تھوڑی ہے
یہ تو بس دل ہی تھا مرا پاگل
توٗ مرا انتخاب تھوڑی ہے
اُٹھ چکے ہیں نقاب چہرے سے
درمیاں اب حجاب تھوڑی ہے
یوں ہی آنکھیں دکھائیں دنیا کو
سامنے تیرا خواب تھوڑی ہے
اس لیے بھی سوال کر نہ سکی
کوئی تیرا جواب تھوڑی ہے
عشق میں کوئی تو کشش ہوگی
ورنہ پاگل ربابؔ تھوڑی ہے
فوزیہ ربابؔ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *