عمر رسیدہ درد بھی آنے والے ہیں

عمر رسیدہ درد بھی آنے والے ہیں
آدھے درد ابھی بچے ہیں آدھے درد جوان
روح میں جگہ جگہ پر اپنے شہر بسائے
شریانوں کے جنگل پر ہے ساری گزر بسر
رات رات بھر ہنستے گاتے لڑتے مرتے جیسے مرد جوان
اس بستی میں بے فکرے ہیں زیادہ فکروں والے کم
سارے لال گلال خوشی سے
سارے ہیں گلرنگ
اور ان سارے گلرنگوں میں اک میں زرد جوان
میں اک دیوانہ آوارہ
گلی گلی آوارہ پھرتے
جس کی اٹی ہوئی جھولی میں ہوئی ہے گرد جوان
اور اس گرد کے رزق پہ پلنے بڑھنے والے
آدھے درد ابھی بچے ہیں آدھے درد جوان
سنا ہے
اگلی رات سے پہلے
عمر رسیدہ درد بھی آنے والے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ملو ہم سے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *