محسن کی اک نظم وہ اب

محسن کی اک نظم وہ اب بھی پڑھتی ہو گی
آئینوں سے آنکھ چراتی پھرتی ہو گی
جب بھی بھیگا کرتی ہو گی وہ بارش میں
بارش کو وہ کتنی اچھی لگتی ہو گی
خود تو انا کے خوف سے بات نہیں کر پاتی
جن سے بات کروں میں، ان سے جلتی ہو گی
میری غزلوں والی ایک کتاب کو پڑھتے
اپنے گھر کے صحن میں ٹہلا کرتی ہو گی
کہتی ہو گی کتنا بے تُکّا لکھتا ہے
پھر بھی میری ساری غزلیں پڑھتی ہو گی
مجھ کو اپنے من کا راجہ کہنے والی
اب تو مجھ کو گھٹیا لڑکا کہتی ہو گی
کون اٹھانے والا ہو گا ہاتھ پکڑ کے
اب کس عذر سے چلتے چلتے گرتی ہو گی
میرے ذکر پہ ہنستی ہو گی سب لوگوں میں
لیکن تنہائی میں چھپ کر روتی ہو گی
روٹھ کے مجھ سے اتنا دور چلی جائے گی
مجھ کو کیا معلوم تھا اب وہ ایسی ہو گی
میرے ساتھ ہمیشہ رونے ہی روتی تھی
میرے خیال میں اب تو وہ خوش رہتی ہو گی
میرے کچھ آثار تو اُس میں اب بھی ہوں گے
ٹوٹے پھوٹے لفظ تو وہ بھی لکھتی ہو گی
اب اس کو دیکھے بھی عرصہ بیت چکا ہے
جانے وہ کس حال میں ہو گی، کیسی ہو گی
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *