محبت کا تماشا دیکھتا

محبت کا تماشا دیکھتا ہے
کہا بھی تھا زمانہ دیکھتا ہے
تعلق پر بھی انگلی اٹھ گئی ناں!
مجھے اب گھور کے کیا دیکھتا ہے؟
سو میں اُس کی ضرورت بن چکا ہوں
وہ بس اب میرا چہرہ دیکھتا ہے
اُسے غافل سمجھنا مت مری جاں
وہ نہ دیکھے تو سارا دیکھتا ہے
زمیں والوں کو روتے اور مرتے
وہ کتنی دور بیٹھا دیکھتا ہے
میں اپنی دُھن میں پتھر پھینکتا ہوں
مجھے غصے سے دریا دیکھتا ہے
میں صدقے جاؤں اُس کے دیکھنے پر
وہ کیسے اتنا پیارا دیکھتا ہے
کھڑا ہے آئینے کے سامنے وہ
اور اک پیاسے کو پیاسا دیکھتا ہے
نظر سے دور ہو جا سُکھ کی دیوی
تجھے اک دکھ کا مارا دیکھتا ہے
بلا کی خون ریز آنکھیں ہیں اُسکی
وہ کوئی ایسا ویسا دیکھتا ہے؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *