سفر تمام ہوا راستے تمام

سفر تمام ہوا راستے تمام ہوئے
سحر ہوئے نہ تری ہم، نا تیری شام ہوئے
نہیں تھا تجھ میں ذرا سا بھی وصفِ شہنشہی
سو دیکھ ایسے میں ہم پھر ترے غلام ہوئے
وہ باتیں ہائے وہ باتیں ، وہ رس بھری باتیں
کہ جب وہ نینوں سے دو نین ہم کلام ہوئے
اُسے تو یار! کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
ہم اُس کی زیست میں جیسے برائے نام ہوئے
چلو یہ ٹھیک ہوا تم سے جان چھوٹ گئی
ہمیشہ کل پہ جو ڈالے وہ سارے کام ہوئے
ہم اپنے آپ کو اک روز ڈھونڈنے نکلے
تجھے بھی کھو دیا رُسوا بھی گام گام ہوئے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *