درد کا امکان بھی باقی

درد کا امکان بھی باقی رہے
پھر مرا ایمان بھی باقی رہے
نیست بھی تُو ہی کرے ہر ایک شے
اور تیری شان بھی باقی رہے؟
بھر چکا لوگوں سے سارا شہر ہی
کوئی تو انسان بھی باقی رہے
وہ مجھے اس واسطے کھُل کر ملا
دیدہِ حیران بھی باقی رہے
چاہتا ہوں میں ملاقاتیں نہ ہوں
جان اور پہچان بھی باقی رہے
کیوں رکھوں تھوڑا بھی تجھ کو یاد میں؟
کیوں تِرا فقدان بھی باقی رہے؟
کیوں یہ تیرے بعد اب ٹھہرے نہیں؟
کیوں دلِ ویران بھی باقی رہے؟
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *