جو نامنظور تھا جانا

جو نامنظور تھا جانا ہمارا
کبھی تو مانتے کہنا ہمارا
ہمیں یوں بھی ہے عادت ٹوٹنے کی
زیادہ دل نہیں رکھنا ہمارا
یہ آنسو بھی طبیعت کے نہیں تھے
ہمیں بھایا نہیں رونا ہمارا
اسی کے لفظ لکھے جا رہے ہیں
یہ کہنا بھی نہیں کہنا ہمارا
وہ پڑھ لیتا بھی تو خوش رہ نہ پاتا
اسے کب راس تھا لکھنا ہمارا
نجف والوں سے ہے نسبت ہماری
فلک والوں سے ہے ملنا ہمارا
بجا ہونے کی صورت دیکھ لی ہے
غلط نکلا غلط ہونا ہمارا
ہمیں افسوس ہے تو صرف یہ ہے
تو دیکھے گا نہیں جانا ہمارا
ترا ہنسنا سمجھ میں آ رہا ہے
تجھے اچھا لگا گرنا ہمارا
ٹھکانے ہوش لگ جائیں تمہارے
کبھی سہنا ذرا، سہنا ہمارا
قریب آنے سے پہلے سوچنا تھا
کہ تم سے دور ہے، “رہنا” ہمارا
وہی تو زین، دنیا کا ہوا ہے!
وہی اک شخص تھا اپنا ہمارا
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *