اب کسی زخم وفا سے پہلے

اب کسی زخم وفا سے پہلے
مسکراتا ہوں قضا سے پہلے
پھر میں مخلوق سے کچھ کہتا ہوں
بات کرتا ہوں خدا سے پہلے
بعد میں دوں گا توجہ دل پر
پوچھ لوں چشمِ خفا سے پہلے
دل کی منڈیر پہ رکھ بیٹھا ہوں
اک چراغ اور ہوا سے پہلے
خود سے بچھڑا ہوں تو اب سوچتا ہوں
تھا کوئی موڑ انا سے پہلے
ہاتھ بے ساختہ اٹھ جاتے ہیں
عالمِ غم میں دعا سے پہلے
مجھ کو معلوم ہے تم آتے ہو
باغ میں بادِ صبا سے پہلے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم اکیلے ہیں بہت)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *