توسیعی غزلامیرِ شہر

توسیعی غزل
امیرِ شہر کے دربار کا معاملہ ہے
میں جھک نہ پاؤں گا دستار کا معاملہ ہے
غریب جینے نہ پائے عجیب فیصلہ ہے
میں لفظ کہہ کے ہی پتھر دلوں کو کاٹ آیا
مجھے یہ علم تھا، تلوار کا معاملہ ہے
کہیں ذرا سا کوئی سایہ دینے والے نہیں،
عجب، نصیب کے اشجار کا معاملہ ہے
وہ اپنے درد سنائے بڑھا چڑھا کے مجھے
یہ ایک دو نہیں، ہر بار کا معاملہ ہے
میں کوئی بات بھی سنجیدگی سے لیتا نہیں
مگر جو اک ترے انکار کا معاملہ ہے
وہ یوں تو روز ہی آتا ہے مجھ سے ملنے کو
مگر جو روح کی دیوار کا معاملہ ہے
پھر اک دھماکہ ہوا، خوں بہا ہے، گود اجڑی
تم اس کو چھوڑو یہ اخبار کا معاملہ ہے
میں سوچتا ہوں اسے پہلے، پھر یہ سوچتا ہوں
کہ اس کو سوچنا بےکار کا معاملہ ہے
غریب شخص کی مزدوری چھیننے والو
یہ بھوکے بچوں کا، گھر بار کا معاملہ ہے
تُو میرے ساتھ نہیں جی سکا، تری ہمت
میں تیرے بعد بھی زندہ ہوں میرا حوصلہ ہے
تجھے بھلانے سوا کچھ نہیں ہے یاد مجھے
یہ میری عمر کا سب سے عجیب مرحلہ‫ ہے
قریب آ کے بھی آتا نہیں ہے آنکھوں میں
تمہارے خواب کا آنکھوں سے کیسا فاصلہ ہے
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *