پھر تو پیڑوں سے بھی دو

پھر تو پیڑوں سے بھی دو نام مٹا دینے تھے
تو نے گر عہد مرے دوست بھلا دینے تھے
آج ہی چاند نے بادل میں نہاں رہنا تھا
آج ہی رات نے تارے بھی سُلا دینے تھے
آگ میں جھونک کے جانا تھا مری آنکھوں کو
جاتے جاتے مرے جذبے بھی جلا دینے تھے
میرے کہنے کا کہاں اس نے بھرم رکھنا تھا
اس نے محفل سے کہاں لوگ اٹھا دینے تھے
اے مرے خوفزدہ ! شب سے بھلا کیا ڈرنا
میں نے راہوں میں کئی دیپ جلا دینے تھے
میرے انکار نے کرنا تھا مجھے ہی رسوا!
اس نے اک پل میں کئی اشک بہا دینے تھے
یہ سمندر ہی اجازت نہیں دیتا ورنہ
میں نے پانی پہ ترے نقش بنا دینے تھے
جانے کیوں آبِ محبت میں مجھے ہی اس نے
گھول کر درد کے تعویز پلا دینے تھے!
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *