بول پیا ذات کا

’’ بول پیا‘‘
ذات کا گنجل کھول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
اس رات کی کالی چادر کو
یہ چاند ستارے اوڑھ چکے
کچھ جان سے پیارے یار سجن
دل توڑ چکے، مکھ موڑ چکے
خود آپ بھٹکتی راہوں میں
یہ تن تنہا مت رول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
وہ عشوہ و غمزہ دیکھ لیا
اب رات کٹے گی خوابوں میں
میں نام ترے جیون جیون
تم اب تک دور سرابوں میں
جو راکھ ہوئی ان خوابوں میں
یہ ہستی ہے انمول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
تو جب تک اپنے پاس رہا
گرداب کا گھیرا راس رہا
پر تول چکا، سب بول چکا
اب من پنچھی بے آس رہا
جذبات نہیں معصیت کے
یوں زہر نہ ان میں گھول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
دربار لگا ہے زخموں کا
دردوں کی نمائش جاری ہے
رِستا ہے لہو ان پھولوں سے
خاروں کی ستائش جاری ہے
ہر زخم مہکنے لگ جائے
اک بول تو ایسا بول پِیا
’’کچھ بول پِیا‘‘
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *