اس کو آتی نہیں چھپانی

اس کو آتی نہیں چھپانی، ہنسی
ہم نے دل سے نہیں بھُلانی، ہنسی
اب وہ ہر بات پر نہیں ہنستا
اب وہ ہنستا ہے بس گیانی ہنسی
لاکھ چاہا نہ آ سکی لب پر
آج تو بات بھی نہ مانی، ہنسی
وہ بھی کرتا رہا نئی باتیں
ہم بھی ہنستے رہے پرانی ہنسی
لب پہ مسکان اور نم آنکھیں
کیسے عالم میں وہ دِوانی ہنسی
اس نے سختی سے کہہ دیا مجھ کو
اب لبوں سے نہیں اٹھانی ہنسی
تم ہنسی ہو تو یوں لگا مجھ کو
کوئی راجہ کی آج رانی ہنسی
حادثہ ہو گیا تھا آخر میں
روئے کردار تو کہانی ہنسی
میں لڑکپن سے اب تلک رویا
مجھ پہ کیوں آج یہ جوانی، ہنسی؟
زین جب تک نہیں ہنسے گا وہ
تیرے لب پر نہیں ہے آنی ہنسی
زین شکیل
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *