ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا پھر ان کی طرف اک نظر دیکھ لینا وہ میرا نہ کہنے میں کہہ جانا سب کچھ وہ ان…

ادامه مطلب

دل گیا بے قراریاں نہ گئیں

دل گیا بے قراریاں نہ گئیں عشق کی خامکاریاں نہ گئیں مر مٹے نام پر وفا کے ہم تیری بے اعتباریاں نہ گئیں لب پہ…

ادامه مطلب

بھولے افسانے وفا کے یاد دلواتے ہوئے

بھولے افسانے وفا کے یاد دلواتے ہوئے تم تو آئے اور دل کی آگ بھڑکاتے ہوئے موج مے بل کھا گئی گل کو جمائی آ…

ادامه مطلب

آہ سے جب دل میں ڈوبے تیر ابھارے جائیں گے

آہ سے جب دل میں ڈوبے تیر ابھارے جائیں گے دیکھ لینا دور تک اڑ کر شرارے جائیں گے موج طوفاں کو جنہوں نے چیرنا…

ادامه مطلب

جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے وہ پہلو

جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے وہ پہلو اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے اثر لکھنوی

ادامه مطلب

تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زیور

تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زیور تمہیں کوئی ضرورت ہی نہیں بننے سنورنے کی اثر لکھنوی

ادامه مطلب

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی

چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی دل ڈوبنے لگا تو ابھارا کبھی کبھی ہر چند اشک یاس جب امڈے تو پی گئے چمکا…

ادامه مطلب

حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں یہ دھوکا تھا کہ تو ہے اور میں ہوں مقام بے نیازی آ گیا ہے وہ جان…

ادامه مطلب

زندگی اور زندگی کی یادگار

زندگی اور زندگی کی یادگار پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں اثر لکھنوی

ادامه مطلب

پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے

پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے دل خون ہو رہا تھا مگر دیکھتے رہے اثر لکھنوی

ادامه مطلب

عشق سے لوگ منع کرتے ہیں

عشق سے لوگ منع کرتے ہیں جیسے کچھ اختیار ہے اپنا اثر لکھنوی

ادامه مطلب

کاہے کو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو

کاہے کو ایسے ڈھیٹ تھے پہلے جھوٹی قسم جو کھاتے تم غیرت سے آ جاتا پسینا آنکھ نہ ہم سے ملاتے تم حیف تمہیں فرصت…

ادامه مطلب

کیا کیا دعائیں مانگتے ہیں سب مگر اثر

کیا کیا دعائیں مانگتے ہیں سب مگر اثر اپنی یہی دعا ہے کوئی مدعا نہ ہو اثر لکھنوی

ادامه مطلب

قاصد پیام ان کا نہ کچھ دیر ابھی سنا

قاصد پیام ان کا نہ کچھ دیر ابھی سنا رہنے دے محو لذت ذوق خبر مجھے اثر لکھنوی

ادامه مطلب

اس کی انگڑائی کا عالم تو کبھی دیکھ اے گل

اس کی انگڑائی کا عالم تو کبھی دیکھ اے گل اور ہی حسن تری چاک گریبانی دے اثر لکھنوی

ادامه مطلب

مجھ کو ہر پھول سناتا تھا فسانہ تیرا

مجھ کو ہر پھول سناتا تھا فسانہ تیرا تیرے دامن کی قسم اپنے گریباں کی قسم اثر لکھنوی

ادامه مطلب

آہ کس سے کہیں کہ ہم کیا تھے

آہ کس سے کہیں کہ ہم کیا تھے سب یہی دیکھتے ہیں کیا ہیں ہم اثر لکھنوی

ادامه مطلب

نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے

نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے مزا جو اپنی محبت کے اعتبار میں ہے ابھی سے ہوش نہ کھو بیٹھ اے نسیم…

ادامه مطلب

ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے

ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی اثر لکھنوی

ادامه مطلب

اب ہاتھ ملتے ہیں کہ دم عرض ماجرا

اب ہاتھ ملتے ہیں کہ دم عرض ماجرا کہنے کی بات دھیان سے کیسی اتر گئی اثر لکھنوی

ادامه مطلب

آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو

آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو دولت دو جہاں ملی مجھ کو اثر لکھنوی

ادامه مطلب