اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا

اندوہ و غم کے جوش سے دل رک کے خوں ہوا
اب کے مجھے بہار سے آگے جنوں ہوا
اچھا نہیں ہے رفتن رنگیں بھی اس قدر
سنیو کہ اس کی چال پر اک آدھ خوں ہوا
جی میں تھا خوب جا کے خرابے میں رویئے
سیلاب آیا آ کے چلا کیا شگوں ہوا
نخچیر گاہ عشق میں افراط صید سے
روح الامیں کا نام شکار زبوں ہوا
ہوں داغ نازکی کہ کیا تھا خیال بوس
گلبرگ سا وہ ہونٹ جو تھا نیلگوں ہوا
میں دور ہوں اگرچہ برابر ہوں خاک سے
اس رہ میں نقش پا ہی مرا رہ نموں ہوا
میرؔ ان نے سرگذشت سنی ساری رات کو
افسانہ عاشقی کا ہماری فسوں ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *