بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے

بو کیے کمھلائے جاتے ہو نزاکت ہائے رے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے
یار بے پروا و مفتر اور میں بے اختیار
پیش کچھ جاتی نہیں منت سماجت ہائے رے
سختی کھینچی کوہکن نے قیس نے رنج و تعب
کیا گئی برباد ان یاروں کی محنت ہائے رے
شور اٹھتا ہے جو ہوتے جلوہ گر ہو ناز سے
کھینچنا قد کا بلا آفت قیامت ہائے رے
خانقہ والے ہی کچھ تنہا نہیں الفت میں خوار
کیسے کیسوں کی گئی ہے مفت عزت ہائے رے
عشق میں افسوس سا افسوس اپنا کر چکے
زیر لب کہتے رہے ہم ایک مدت ہائے رے
ریجھنے ہی کے ہے قابل یار کی ترکیب میرؔ
واہ وا رے چشم و ابرو قد و قامت ہائے رے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *