پھرتے پھرتے اس کے لیے میں آخر دشت نورد ہوا

پھرتے پھرتے اس کے لیے میں آخر دشت نورد ہوا
دیکھ آنکھیں وہ سرمہ گیں میں پھر دنبالہ گرد ہوا
جیتے جی میت کے رنگوں لوگ مجھے اب پاتے ہیں
جوش بہار عشق میں یعنی سرتا پا میں زرد ہوا
گرم مزاج رہا نہیں اپنا ویسے اس کے ہجراں میں
ہوتے ہوتے افسردہ دیکھو گے اک دن سرد ہوا
میرؔ نہ اپنے درد دل کو مجھ سے کہا کر روز و شب
صبح جو گوش دل سے سنا تھا دل میں میرے درد ہوا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *