جگر لوہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ

جگر لوہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ
دلیل اس کی نمایاں ہے مری آنکھیں ہیں خوں بستہ
چمن میں دل خراش آواز آتی ہے چلی شاید
پس دیوار گلشن نالہ کش ہے کوئی پر بستہ
جگر سوزاں و دل بریاں برہنہ پا و سرقرباں
تجاوز کیا کروں اس سے کہ ان ہی کا ہوں وابستہ
ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خار مژگاں ہیں
جو تو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ
مرے آگے نہیں ہنستا تو آ اک صلح کرتا ہوں
بھلا میں روؤں دو دریا تبسم کر تو یک پستہ
تعجب ہے مجھے یہ سرو کو آزاد کہتے ہیں
سراپا دل کی صورت جس کی ہو وہ کیا ہو وارستہ
تری گل گشت کی خاطر بنا ہے باغ داغوں سے
پرطاؤس سینہ ہے تمامی دست گلدستہ
بجا ہے گر فلک پر فخر سے پھینکے کلاہ اپنی
کہے جو اس زمیں میں میرؔ یک مصراع برجستہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *