رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب

رویا کیے ہیں غم سے ترے ہم تمام شب
پڑتی رہی ہے زور سے شبنم تمام شب
رکنے سے دل کے آج بچا ہوں تو اب جیا
چھاتی ہی میں رہا ہے مرا دم تمام شب
یہ اتصال اشک جگر سوز کا کہاں
روتی ہے یوں تو شمع بھی کم کم تمام شب
شکوہ عبث ہے میرؔ کہ کڑھتے ہیں سارے دن
یا دل کا حال رہتا ہے درہم تمام شب
گذرا کسے جہاں میں خوشی سے تمام روز
کس کی گئی زمانے میں بے غم تمام شب
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *