عشق کرنے کو جگر چاہیے آسان نہیں

عشق کرنے کو جگر چاہیے آسان نہیں
سب کو دعویٰ ہے ولے ایک میں یہ جان نہیں
غارت دیں میں نگہ خصمی ایماں میں ادا
تجھ کو کافر نہ کہے جو وہ مسلمان نہیں
سرسری ملیے بتوں سے جو نہ ہو تاب جفا
عشق کا ذائقہ کچھ داخل ایمان نہیں
ایک بے درد تجھے پاس نہیں عاشق کا
ورنہ عالم میں کسے خاطر مہمان نہیں
کیونکے غم سرزدہ ہر لحظہ نہ آوے دل میں
گھر ہے درویش کا یاں در نہیں دربان نہیں
ہم نشیں آہ نہ تکلیف شکیبائی کر
عشق میں صبر و تحمل ہو یہ امکان نہیں
کس طرح منزل مقصود پہ پہنچیں گے میرؔ
سفر دور ہے اور ہم کنے سامان نہیں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *