گل میں اس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا

گل میں اس کی سی جو بو آئی تو آیا نہ گیا
ہم کو بن دوش ہوا باغ سے لایا نہ گیا
آہ جو نکلی مرے منھ سے تو افلاک کے پاس
اس کے آشوب کے عہدے سے بر آیا نہ گیا
گل نے ہر چند کہا باغ میں رہ پر اس بن
جی جو اچٹا تو کسو طرح لگایا نہ گیا
سرنشین رہ میخانہ ہوں میں کیا جانوں
رسم مسجد کے تئیں شیخ کہ آیا نہ گیا
حیف وے جن کے وہ اس وقت میں پہنچا جس وقت
ان کنے حال اشاروں سے بتایا نہ گیا
منتظر اس کے کرخت ہو گئے بیٹھے بیٹھے
جس کے مردے کو اٹھایا سو لٹایا نہ گیا
خطر راہ محبت کہیں جوں حرف مٹے
جس سے اس طرف کو قاصد بھی چلایا نہ گیا
خوف آشوب سے غوغائے قیامت کے لیے
خون خوابیدۂ عشاق جگایا نہ گیا
میرؔ مت عذر گریباں کے پھٹے رہنے کا کر
زخم دل چاک جگر تھا کہ سلایا نہ گیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *