کبھی بادل وار برس سائیں
مرا سینہ گیا ترس سائیں
میں توبہ تائب دیوانہ
آبادکروں کیا ویرانہ
مری بس سائیں، مری بس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
اس عشق نے عجب اسیر کیا
خود دل سینے میں تیر کیا
کیا چلے گی پیش و پس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
ہم بھی کچھ کھل کر سانسیں لیں
اشکوں سے دھل کر سانسیں لیں
کچھ گھول فضا میں رَس سائیں
کبھی بادل وار برس سائیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)