گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا

گیا میں جان سے وہ بھی جو ٹک آتا تو کیا ہوتا
قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا
پھرا تھا دور اس سے مدتوں میں کوہ و صحرا میں
بلا کر پاس اپنے مجھ کو بٹھلاتا تو کیا ہوتا
ہوئے آخر کو سارے کام ضائع نا شکیبی سے
کوئی دن اور تاب ہجر دل لاتا تو کیا ہوتا
دم بسمل ہمارے زیر لب کچھ کچھ کہا سب نے
جو وہ بے رحم بھی کچھ منھ سے فرماتا تو کیا ہوتا
کہے سے غیر کے وہ توڑ بیٹھا ووہیں یاروں سے
کیے جاتا اگر ٹک چاہ کا ناتا تو کیا ہوتا
کبھو سرگرم بازی ہمدموں سے یاں بھی آ جاتا
ہمیں یک چند اگر وہ اور بہلاتا تو کیا ہوتا
گئے لے میرؔ کو کل قتل کرنے اس کے در پر سے
جو وہ بھی گھر سے باہر اپنے ٹک آتا تو کیا ہوتا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *