محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں

محمل نشیں ہیں کتنے خدام یار میں یاں
لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں
سن شور کل قفس میں دل داغ سب ہوا ہے
کیا پھول گل کھلے ہیں اب کے بہار میں یاں
کب روشنی ہو میرے رونے میں ابر تجھ سے
دریا بھرے ہیں ایک اک دامن کے تار میں یاں
تم تو گئے دکھا کر ٹک برق کے سے جھمکے
آیا بہت تفاوت صبر و قرار میں یاں
ہم مر گئے ولیکن سوز دروں وہی ہے
ایک آگ لگ اٹھی ہے کنج مزار میں یاں
ہجراں کی ہر گھڑی ہے سو سو برس تعب سے
روز شمار یارو ہے کس شمار میں یاں
جن راتوں میرؔ ہم کو رونے کا مشغلہ تھا
رہتا تھا بحر اعظم سو تو کنار میں یاں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *