مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا

مذکور میری سوختگی کا جو چل پڑا
مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا
پہنچے ہے کوئی اس تن نازک کے لطف کو
گل گو چمن میں جامے سے اپنے نکل پڑا
میں جو کہا اک آگ سی سلگے ہے دل کے بیچ
کہنے لگا کہ یوں ہی کوئی دن تو جل پڑا
بل کیوں نہ کھائیے کہ لگا رہنے اب تو واں
بالوں میں اور پیچ میں پگڑی کے بل پڑا
تھے اختلال اگرچہ مزاجوں میں کب سے لیک
ہلنے میں اس پلک کے نہایت خلل پڑا
رہتا نہیں ہے آنکھ سے آنسو ترے لیے
دیکھی جو اچھی شے تو یہ لڑکا مچل پڑا
سر اس کے پاؤں سے نہیں اٹھتے ستم ہے میرؔ
گر خوش غلاف نیمچہ اس کا اگل پڑا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *