مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا

مستانہ اگرچہ میں طاعت کو لگا جاتا
پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا
بازار میں ہو جانا اس مہ کا تماشا تھا
یوسفؑ بھی جو واں ہوتا تو اس پہ بکا جاتا
دیکھا نہ ادھر ورنہ آتا نہ نظر پھر میں
جی مفت مرا جاتا اس شوخ کا کیا جاتا
شب آہ شرر افشاں ہونٹوں سے پھری میرے
سر کھینچتا یہ شعلہ تو مجھ کو جلا جاتا
کیا شوق کی باتوں کی تحریر ہوئی مشکل
تھے جمع قلم کاغذ پر کچھ نہ لکھا جاتا
آنکھیں مری کھلتیں تو اس چہرے ہی پر پڑتیں
کیا ہوتا یکایک وہ سر پر مرے آ جاتا
سبزے کا ہوا روکش خط رخ جاناں کے
جو ہاتھ مرے چڑھتا تو پان کو کھا جاتا
ہے شوق سیہ رو سے بدنامی و رسوائی
کیوں کام بگڑ جاتا جو صبر کیا جاتا
تھا میرؔ بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ہلا جاتا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *