ہے مری ہر اک غزل پر اجتماع

ہے مری ہر اک غزل پر اجتماع
خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع
وجد میں رکھتا ہے اہل فہم کو
میرے شعر و شاعری کا استماع
نیم بسمل چھوڑ دینا رحم کر
اس شکار افگن کا ہے گا اختراع
کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور
ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع
یار دشمن ہو گیا اس کے سبب
ہے متاع دوستی بھی کیا متاع
دل جگر خوں ہو کے رخصت ہو گئے
حسرت آلودہ ہے کیا اشک وداع
میرؔ درد دل نہ کہہ ظالم بس اب
ہو گیا ہے سامعوں کو تو صداع
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *