کہا جھنجھلا کے اہل قافلہ سے ایک رہبر نے

کہا جھنجھلا کے اہل قافلہ سے ایک رہبر نے
ابھی تو پہلی منزل ہے ابھی سے کیوں لگے ڈرنے

مکمل داستاں کا اختصار اتنا ہی کافی ہے
سلایا شور دنیا نے جگایا شور محشر نے

سر دیوار زنداں چاندنی چھنتی تھی پتوں سے
دیا تھا قید میں کیا لطف ایسی شب کے منظر نے

زمانہ کی کشاکش کا دیا پیہم پتہ مجھ کو
کہیں ٹوٹے ہوئے دل نے کہیں ٹوٹے ہوئے سر نے

ہیں کتنی مختلف باہم طبائع نسل انساں کی
رہے معذور اب تک جو چلے تھے تجزیے کرنے

فدائے رنگ و روغن سطح بیں سے کیا غرض اس کو
جگہ دی جس کو چشم و دل میں ہر اک اہل جوہر نے

امن لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *