امیدیں تو وابستہ ہیں ابر تر سے

امیدیں تو وابستہ ہیں ابر تر سے
جو برسے تو برسے نہ برسے نہ برسے

جہاں کیا ہے اور اس کی رنگینیاں کیا
یہ پوچھو کسی دیدۂ حق نگر سے

زبان و دہن سے جو کھلتے نہیں ہیں
وہ کھل جاتے ہیں راز اکثر نظر سے

مرا راستہ کارواں سے الگ ہے
گزرنا ہے اک منزل پر خطر سے

یہ ہے امن انساں کی پستی سی پستی
گنہ سے بچا بھی تو دوزخ کے ڈر سے

امن لکھنوی

Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *