پردہ چہرے سے اٹھا ،

پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر
پردہ چہرے سے اٹھا ، انجمن آرائی کر
چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر
تو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر
نفس گرم کی تاثیر ہے اعجاز حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر
کب تلک طور پہ دریوزہ گرمی مثل کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
ہو تری خاک کے ہر ذرے سے تعمیر حرم
دل کو بیگانہ انداز کلیسائی کر
اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر
پہلے خوددار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر
مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلی اقبال!
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *