بے چین بہاروں میں کیا کیا ہے جان کی خوشبو آتی ہے

بے چین بہاروں میں کیا کیا ہے جان کی خوشبو آتی ہے
جو پھول مہکتا ہے اس سے طوفان کی خوشبو آتی ہے
کل رات دکھا کے خواب قریب سو سیج کو سونا چھوڑ گیا
ہر سلوٹ سے پھر آج اسی مہماں کی خوشبو آتی ہے
تلقین عبادت کی ہے مجھے یوں تیری مقدس آنکھوں نے
مندر کے دریچوں سے جیسے لبوں کی خوشبو آتی ہے
کچھ اور بھی سانس لینے پر مجبور سا میں ہو جاتا ہوں
جب اتنے بڑے جنگل میں کسی انسان کی خوشبو آتی ہے
کچھ تو ہی مجھے اب سمجھا دے اے کفر دھائی ہے تیری
کیوں شیخ کے دامن سے مجھ کو ایمان کی خوشبو آتی ہے
ڈرتا ہوں کہیں اس عالم میں جینے سے نہ منکر ہو جائوں
احباب کی باتوں سے مجھ کو احسان کی خوشبو آتی ہے
قتیل شفائی
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *