اَلا یَللّی

اَلا یَللّی
مرے اِدھر ہی نہیں اُدھر بھی، مرے وَرے ہی نہیں پرے بھی
جو دیکھنے اور دکھائی دینے میں ہے (وہ جو بھی ہے) میرا قاتل ہے
اور میں ہوں جو ہر طرف قتل ہو رہا ہے
میں اپنے چاروں طرف سے کتنی ہی اپنی لاشوں کا ایک انبوہ سَہ رہا ہوں
میں اپنے بیروں کے اندروں میں نڈھال ہوں اور ڈھے رہا ہوں
مرے جنازے اُٹھائے جاتے ہیں، میرے کاندھوں پہ لائے جاتے ہیں
کہاں کہاں دفن ہو رہا ہوں
ہزار لاشوں کا اک جنازہ، کہاں کہاں دفن ہو رہا ہے
یہ مرنے والے عَجب ہی کچھ تھے (یہ مرنے والے)
اَلا یَللّی، اَلا یَللّی
میں اپنے ہر دفن سے، کفن سے، وجود کا اک نیا بہانہ اُچک رہا ہوں
(یہ مرنے والا عجب ہی کچھ ہے)
مجھے مری ریزہ ریزہ لاشوں سے نَو بہ نَو کالبُد ملے ہیں
یہ سب کے سب جا چُکیں تو میں اپنی قبر کھودوں
کہ قبر میری بجز مرے اور کون کھودے گا؟
چلے گئے سب، یہ مرنے والے چلے گئے سب؟
تو، لے میں اب اپنی قبر کھودوں
اور اپنی لاش اپنے آپ میں۔۔۔ اپنے زندہ سینے میں دفن کر دوں
میں مَر چکا ہوں، میں جی اٹھا ہوں
اَلا یَللّی، اَلا یَللّی
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *