بودش

بودش
گریزا کہکشانوں میں
سر آشفتہ عبث کا ایک درہم کالبد شیپو رزن
ہر دم خود اپنے آپ کی درہم زنی برہم زنی کی
حالت ہا کول حجیم جہاں سوزی میں جلتا ہے
فنا انفاس تاریکی کے مرغولے اگلتا ہے
یہ بالا کیا یہ ژرفا کیا یہ پہنا کیا؟
کوئی معنی نہیں بودش کے کوئی بھی نہیں کوئی
سراب و ہم کے خوابیدہ گردوں کی دوش ہے
سوئے ہرزہ سوئے ہرزہ
ادراک دریوزگی پیشہ گماں کی بند بازی ہے
خیال دور پرواز جہات بے نہایت کی جو ساری مزد ہے
وہ نسل آدم کے ملال دل گرانی کے سوا کیا ہے
ازل ہائے ازل کا اور ابد ہائے ابد کا جو عبث ہے
اس کی آخر کیا شمارش ہے
شمارش کا گلہ کیا ہے
کسی کے زوزہ گفتار میں آخر رکھا کیا ہے
یہ جو کچھ بھی ہے جو کچھ
ایک سنجش، چشم بندی کی زبوں فرجام سنجش ہے
یہ منظر چہرہ پرچین رستا خیز ہر لمحہ کا منظر ہے
جو یکسر واژگوں ہے اور نگوں سر ہے
جو بینائی کی ہر دم خوار کاری ہے
سو جو لمحہ ہے بینش کا وہ دیوانہ وارہے
سو جو مقسم ہے دانش کا وہ دیوانہ واری ہے
یہاں اندازہ گیری کا جو لمحہ ہے نکوہش ہے
کوئی معنی نہیں بودش کے بودش خوار کا وہم بودش ہے
ازل سے جس کا مفہوم خجستہ اس نفس تک ایک ہرزہ ہے
سبھی کچھ ایک یکسر نا سزیدہ تر تماشے کا تماشا ہے
اہور اور انسان اور اہرمن
بس اک ننگین و شرم آور سر انجامی کے تنور ہمیشہ حال کا
بے مایہ ہیزم ہیں
یہ اپنے آپ ہی سے جو سراسر وہم ہے
بیشینہ بے اندازہ تر کم ہیں
یہ بالا کیا، یہ ژرفا کیا، یہ پہنا کیا؟
کوئی معنی نہیں بودش کے کوئی بھی نہیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *