پرِتو جاں، بہت ہی کم ٹھیرا

پرِتو جاں، بہت ہی کم ٹھیرا
ہم میں جاناں، بہت ہی کم ٹھیرا
ہم تو آئے تھے حشر عرصہ طلب
پر بیابا بہت ہی کم ٹھیرا
ہم تھے یزداں طلب ہمشہ کے
اور یزداں بہت ہی کم ٹھیرا
تھا عجب بے حسا ب دست جنوں
سو گریباں، بہت ہی کم ٹھیرا
تھا ہمارا خیال اور کہیں
عہد و پیماں، بہت ہی کم ٹھیرا
ہم تھے خوابیدہ گرد حالت حال
شہر خوباں بہت ہی کم ٹھیرا
تھی یہ کہنہ سرائے دل ہی خراب
جو بھی تھا یاں، بہت ہی کم ٹھیرا
تھی ہوس حالتی ہمہ مطلب
اور ساماں بہت ہی کم ٹھیرا
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *