سچائیوں کے ساتھ

سچائیوں کے ساتھ
ذہن کا غم،ذات کا غم ،ذات کے رشتوں کا غم
کتنے غم ہیں جو شعورِ زندگی کے ساتھ ہی
اک مصیبت ہے ،بلا ہے آگہی کی روشنی
کس قدر تاریکیاں اس روشنی کے ساتھ ہیں

میں ہوں اک فن کار و شاعر اور میری زندگی
زندگی کے غم میں جلنے کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک صحرا ہے مرا عہد جوانی اور مجھے
کام اس صحرا میں چلنے کے سوا کچھ بھی نہیں
٭
میرا غم ہے میرے احساسات کی نیکی کا غم
میرے اس صبر آزما غم نے جلا ڈالا مجھے
آج بھی حق سخت مشکل میں ہے ، اس احساس نے
عمر کی شاداب فصلوں میں بجھا ڈالا مجھے
٭
چاٹتی ہے آج بھی انسانیت اپنا لہو
زندگی ہے آج بھی خود اپنے زخموں کا شمار
آج بھی قوموں کو دھمکاتا ہے قوموں کا غرور
ہے دلوں میں آج بھی تاریک صدیوں کا غبار
٭
میں ہوں اس ملت کا شاعر جس کے حق میں سامراج
سازشوں کا زہر ہے، عیاریوں کا وار ہے
دشمنی نے نام رکھ چھوڑا ہے اپنا دوستی
کس قدر قاتل یہ لطف نرمیِ گفتار ہے
٭
حل نہ کرنے کے لیے ہر مسئلہ ہے زیر غور
مسئلوں کو اور الجھانے کا فن ہے سامراج
بستیاں ہیں مضطرب، آبادیاں ہیں مضمحل
بربط خود پروری پر زخمہ زن ہے سامراج
٭
کتنے ہی غم ہیں جو ہم سودائیوں کے ساتھ ہیں
ہم جو حق کے ساتھ ہیں ، سچائیوں کے ساتھ ہیں
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *