لَوحِ آواز

لَوحِ آواز
ان کا سناٹا جو ہیں، ان کا سناٹا جو نہیں ہیں
سناٹا ہی سناٹا ہے
سناٹے نے دہلیزوں پر سناٹے کے دوش پہ چڑھ کر
دروازوں پر کچھ لکھا ہے
دہلیزوں نے دروازوں پر کیا لکھا ہے؟
لکھا ہے تم شور کو بھی سناٹا پڑھنا
رولے کی دوری میں چلنا، سناتوں میں آگے بڑھنا
سناٹوں کے گہرے پن نے چوہرے پن میں اندھی اندھیاری پھیلائی
یوں تھا یا پھر یوں تھا جیسے اندھی اندھیاری میں چوہرے پن میں
یا پھر میں یوں کہہ لوں سب کچھ پن میں سناتے پھیلائے
سناٹے اور اندھیاری میں، سناٹا پہلے تھا
یا اندھیاری سناٹے سے پہلے تھی
میں تو سمجھوں سناٹا ہی پہلے ہو گا
اور اندھیاری پیچھے ہو گی
اندھیاری آوازوں کا سناٹا ہے
اور سناٹا آوازوں کی اندھیاری ہے
پھر تو دونوں ایک ہوئے
سناٹا اور اندھیاری دونوں ایک ہوئے
اور یہ دونوں روشنیوں کی پلکوں پر
اور روشنیوں کے پیروں میں
اور روشنیوں کی ساتوں پوشاکوں میں
اور ان ساری پوشاکوں کے تار و پود مین جن کو سلنا ہے
اور ان پوشاکوں میں جو اس چوہرے پن کے بقچے میں رکھی ہیں
اپنا پن ڈھکائے ہوئے ہیں
سو، تم میرے ہونٹوں سے اک بھید اُچک لو
رولا اک سناٹا ہے جو سناٹے کو بہکاتا ہے
روشنیوں کے جتنے بڑ بولے ہیں، جو سب گونگے ہیں
روشنیوںکے سننے پن کی ساری شہوت بہری ہے
اور بہرے پن میں سناٹا ہے
سناٹے میں آوازوں کی اندھیاری ہے
اندھیاری کے سناٹے میں، سناٹے کے اندھے پن میں
اندھیاری میں روشنیوں کی پگلی اور پھوکل رفتاریں
اپنے گھٹنے سہلاتی ہیں اپنے گھٹنوں سے جاتی ہیں
ان دیکھے پن کے اگواڑے سے پہلے ہی
روشنیوں نے اپنے گھٹنوں پر ہلدی مل لی تھی
سو، پچھواڑے کا تو اب مذکور ہی کیا ہے
بھنگے پر کاٹھی کَس لی ہے، کس نے؟
پچھواڑوں کی کاہکشانون کی اک لنگڑی لولی اور سجی، لے پالک نے
جو اپنی رفتار کی شہوت پر اندھیاروں میں چرتی ہے
روشنی! تو نے گھاس ہی کھائی
جون ایلیا
(راموز)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *