مرے مستِ ادا! ہر اک سے مت مل

مرے مستِ ادا! ہر اک سے مت مل
زمانہ ہے برا، ہر اک سے مت مل
مجھی سے مل کہ میں بندہ ہوں تیرا
ہے تو میرا خدا، ہر اک سے مت مل
نگارا، دلبرا! کم کم نظر آ
نگارا دلبرا! ہر اک سے مت مل
نہ جانے کون کن اطوار کا ہو
ہے میرا مشورہ، ہر اک سے مت مل
مری جاں! اے مری جاں! تو مجھے بھی
ہر اک سے مت ملا، ہر اک سے مت مل
نہیں ذمہ اب آیندہ کو میرا
میں تجھ سے کہہ چکا، ہر اک سے مت مل
کچھ ایسے بھی ہیں جن سے تو ملا کر
مرا کہنا ہے کیا، ہر اک سے مت مل
نہ کر مجھ سے وفا، شکوہ نہیں ہے
مگر اے بے وفا! ہر اک سے مت مل
یہی تو دلربائی کا ہے نکتہ
ہر اک کے دلربا! ہر اک سے مت مل
خیال آرا رہو تو شہر دل میں
نگاہوں میں نہ آ، ہر اک سے مت مل
ہے مست رنگ تو خود یک جہاں رنگ
سو، مستی مت دکھا، ہر اک سے مت مل
عجب ناقدر ہے وہ شخص اپنا
مجھے کہنا پڑا، ہر اک سے مت مل
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *