مظلوم حسرتوں کے سہاروں کا ساتھ دو

مظلوم حسرتوں کے سہاروں کا ساتھ دو
باہر نکل کے سینہ فگاروں کا ساتھ دو
اک معرکہ بہار و خزاں میں ہے ان دنوں
سب کچھ نثار کر کے بہاروں کا ساتھ دو
تم کو حریمِ دیدہ و دل ہے اگر عزیز
شہروں کے ساتھ آؤ، دیاروں کا ساتھ دو
آبادیوں سے عرض ہے، شہروں سے التماس
اس وقت اپنے کارگزاروں کا ساتھ دو
زخموں سے جن کے پھوٹ رہی ہے شعاعِ رنگ
ان حسن پروروں کی قطاروں کا ساتھ دو
روشن گروں نے خوں سے جلائی ہیں مشعلیں
ان مشعلوں کے سرخ اشاروں کا ساتھ دو
بیدار رہ کے آخرِ شب کے حصار میں
خورشید کے جریدہ نگاروں کا ساتھ دو
یاروں کا اک ہجوم چلا ہے کفن بدوش
ہے آج روزِ واقعہ، یاروں کا ساتھ دو
جون ایلیا
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *