آج پھر پچھلی اداسی نے ہمیں گھیر لیا

آج پھر پچھلی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
آج پھر پچھلی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
ہم کو حیرت ہے کہ یوں فوراً ہی
کس طرح رنگ بدل لیتی ہے یہ بیماری
کس طرح نام بدل لیتی ہے
کس طرح چہرہ بدل لیتی ہے
آج تو دیکھ ترا نام پہن آئی ہے
تیرے چہرے کے خدوخال چرا لائی ہے
مجھ کو شک ہے کہ کوئی بات ہوئی ہے مجھ سے
بے وفائی مرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتی ہے
کیا میں انسان کے ایمان سے مایوس رہوں
کیا میں ہر شخص کی پہچان سے مایوس رہوں
دل کبھی ڈوب کے ابھرے گا یا ڈوبا ہی رہے گا اپنا
کونسا تار ہلاؤں کہ خوشی کی کوئی سر گم نکلے
واہ کیا اجنبی الفاظ قلم سے نکلے
ورنہ یہ لفظ خوشی اور خوشی کی سرکم
غم کے سازوں سے کوئی اور صدا کیوں نکلے
اپنے محور سے ہوا کیوں نکلے
آسمانوں سے خدا کیوں نکلے
روح سے کرب و بلا کیوں نکلے
آج یوں پچھلی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
جیسے جیون ہی کو خود اپنی طرف پھیر لیا
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *