اس قدر خامشی

اس قدر خامشی
کون سے دیس سے آئے ہو
خامشی سے اٹا پیرہن اوڑھ کر
کچھ نہ کہنے کی گم سُم ردا اوڑھ کر
سارے ماحول پر
جیسے بے حس و حرکت ہوا اوڑھ کر
کون سے دیس سے آئے ہو
اتنی بے رحم چُپ
جو کسی شور سے زیادہ پر شور ہو
جو کسی چیخ سے زیادہ دلدوز ہو
جو کسی ہول سے زیادہ گھمبیر ہو
جو کسی آہ سے زیادہ گہری ہو
تلوار سے تیز ہو
اتنی بے رحم چپ کون سے دیس سے لائے ہو
مجھ کو معلوم ہے
بات تو ختم آغاز سے پیشتر ہوگئی
پر یہ لب
یہ تمہارے دعاؤں سے لب
اس تشنُّج سے نا آشنا ہیں ابھی
کو کبھی بات کے
بات ہی بات میں ٹوٹ جانے سے گرتا ہے
اور عمر بھر چُرمرے سرد ہونٹوں کی دہلیز سے اٹھ کے جاتا نہیں
اور کبھی لفظ کی رائیگانی میں لپٹا ہوا
کھینچ لیتا ہے اعصاب کے تار بھی
کون سے دیس سے آئے ہو
اس نگر میں تو بِکتی ہیں خاموشیاں اور پھربول پڑتی ہیں
باتوں کے لگتے ہیں بھاؤ
جو گونگی نکلتی ہیں گھر آن کر
اتنی سُچی خموشی کہاں ہے یہاں
اتنی اجلی خموشی تو ناپید ہے
اس عبادت کو آوارہ پھرتے ہوئے زرد ، بے نور لفظوں سے محفوظ رکھ
یہ نہ ہو کہ کہیں کوئی پہچان ٹوٹے
کہیں کوئی وعدہ گرے
اور پھر تیرے لب
اس قفس کی طرح تھرتھراتے رہیں
جس سے ٹکرا کے قیدی پرندہ کوئی
زندگی کا ہر اک قفل ہی توڑ دے
کون سے دیس سے آئے ہو
خامشی، خامشی
آنکھ میں، روح میں
راہ میں
باغ میں، باغ کے بنچ پر
کوٹ کی جیب میں
ہاتھ کی چوڑیوں کے کناروں پہ
بالوں میں باندھے ہوئے پھول پر
اس قدر خامشی
اس قدر خامشی کون سے دیس سے لائے ہو
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *