اک صدی بعد دل سنبھلتا ہے

اک صدی بعد دل سنبھلتا ہے
پھر کہیں جا کے غم بدلتا ہے
بجھ گیا ہے تمہاری یاد کا چاند
اک دیا سا کہیں پہ جلتا ہے
ہجر کی دھوپ کے عذاب میں دل
جیسے موتی کوئی پگھلتا ہے
کون ہے اور کیوں نصیب مرے
اپنے پیروں تلے مسلتا ہے
یوں ترا درد میرے سینے میں
جیسے مٹی میں دل مچلتا ہے
درد بھی کیسا ہم سفر ہے مرا
رہگزاروں کے دل میں پلتا ہے
بیٹھتا ہوں تو ساتھ بیٹھتا ہے
اور جو چلتا ہوں ساتھ چلتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جدائی راستہ روکے کھڑی ہے)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *